عابد حسین مقدسی



۳۰- وَ قَالَ ( علیه السلام ) :  وَ سُئِلَ ( علیه السلام ) عَنِ الْإِیمَانِ فَقَالَ

الْإِیمَانُ عَلَی أَرْبَعِ دَعَائِمَ عَلَی الصَّبْرِ وَ الْیَقِینِ وَ الْعَدْلِ وَ الْجِهَادِ وَ الصَّبْرُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی الشَّوْقِ وَ الشَّفَقِ وَ اُّهْدِ وَ التَّرَقُّبِ فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَی الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ وَ مَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ وَ مَنْ زَهِدَ فِی الدُّنْیَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِیبَاتِ وَ مَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَی الْخَیْرَاتِ وَ الْیَقِینُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وَ تَأَوُّلِ الْحِکْمَةِ وَ مَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وَ سُنَّةِ الْأَوَّلِینَ فَمَنْ تَبَصَّرَ فِی الْفِطْنَةِ تَبَیَّنَتْ لَهُ الْحِکْمَةُ وَ مَنْ تَبَیَّنَتْ لَهُ الْحِکْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ وَ مَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَکَأَنَّمَا کَانَ فِی الْأَوَّلِینَ وَ الْعَدْلُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی غَائِصِ الْفَهْمِ وَ غَوْرِ الْعِلْمِ وَ زُهْرَةِ الْحُکْمِ وَ رَسَاخَةِ الْحِلْمِ فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ وَ مَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُکْمِ وَ مَنْ حَلُمَ لَمْ یُفَرِّطْ فِی أَمْرِهِ وَ عَاشَ فِی النَّاسِ حَمِیداً

وَ الْجِهَادُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الصِّدْقِ فِی الْمَوَاطِنِ وَ شَنَآنِ الْفَاسِقِینَ فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤْمِنِینَ وَ مَنْ نَهَی عَنِ الْمُنْکَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الْکَافِرِینَ وَ مَنْ صَدَقَ فِی الْمَوَاطِنِ قَضَی مَا عَلَیْهِ وَ مَنْ شَنِئَ الْفَاسِقِینَ وَ غَضِبَ لِلَّهِ غَضِبَ اللَّهُ لَهُ وَ أَرْضَاهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ 


30 حضرت علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔ایمان چار ستونوں پر قائم ہے۔صبر ،یقین ،عدل اور جہاد۔ پھر صبر کی چار شاخیں ہیں۔اشتیاق، خوف ، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار۔اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ،وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ،وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ،وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا۔اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں۔روشن نگاہی ،حقیقت رسی ،عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ۔چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی۔اور جس کے لیے علم و عمل آشکار ہو جائے گا ،وہ عبرت سے آشنا ہو گا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ،تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری۔چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ،وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ،وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہو کر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی۔اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اور جہاد کی بھی چار شاخیں ہیں۔امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ،تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بد کرداروں سے نفرت۔چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ،اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ،اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ،اس نے اپنا فرض ادا کر دیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا۔


۴- وَ قَالَ ( علیه السلام ) : نِعْمَ الْقَرِینُ الرِّضَی الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ کَرِیمَةٌ وَ الْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ وَ الْفِکْرُ مِرْآةٌ صَافِیَةٌ .

4 تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے۔


این متن دومین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

زکات علم، نشر آن است. هر

وبلاگ می تواند پایگاهی برای نشر علم و دانش باشد. بهره برداری علمی از وبلاگ ها نقش بسزایی در تولید محتوای مفید فارسی در اینترنت خواهد داشت. انتشار جزوات و متون درسی، یافته های تحقیقی و مقالات علمی از جمله کاربردهای علمی قابل تصور برای ,بلاگ ها است.

همچنین

وبلاگ نویسی یکی از موثرترین شیوه های نوین اطلاع رسانی است و در جهان کم نیستند وبلاگ هایی که با رسانه های رسمی خبری رقابت می کنند. در بعد کسب و کار نیز، روز به روز بر تعداد شرکت هایی که اطلاع رسانی محصولات، خدمات و رویدادهای خود را از طریق

بلاگ انجام می دهند افزوده می شود.


این متن اولین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

مرد خردمند هنر پیشه را، عمر دو بایست در این روزگار، تا به یکی تجربه اندوختن، با دگری تجربه بردن به کار!

اگر همه ما تجربیات مفید خود را در اختیار دیگران قرار دهیم همه خواهند توانست با انتخاب ها و تصمیم های درست تر، استفاده بهتری از وقت و عمر خود داشته باشند.

همچنین گاهی هدف از نوشتن ترویج نظرات و دیدگاه های شخصی نویسنده یا ابراز احساسات و عواطف اوست. برخی هم انتشار نظرات خود را فرصتی برای نقد و ارزیابی آن می دانند. البته بدیهی است کسانی که دیدگاه های خود را در قالب هنر بیان می کنند، تاثیر بیشتری بر محیط پیرامون خود می گذارند.


  


لَا تَدَعُوا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ الِاجْتِهَادَ فِی الْعِبَادَةِ اتِّکَالًا عَلَى‏ حُبِ‏ آلِ‏ مُحَمَّدٍ ع وَ لَا تَدَعُوا حُبَّ آلِ مُحَمَّدٍ ع وَ التَّسْلِیمَ لِأَمْرِهِمُ اتِّکَالًا عَلَى الْعِبَادَةِ فَإِنَّهُ لَا یُقْبَلُ أَحَدُهُمَا دُونَ الْآخَرِ»

  عالم آل محمد، بادشاہ خراسان حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا :


    *"محبت اہل بیت (ع ) کے سہارے کسی عمل صالح اور عبادت میں  کوشش کو چھوڑ نہ دینا اور نہ ہی عبادت کے بل بوتے پر محبت اہل بیت (ع ) کو ترک کرنا،  اس لیئے کہ عبادت و بندگی محبت اہل بیت (ع ) کے بغیر قبول نہیں اور محبت اہل بیت (ع ) عمل صالح و بندگی کے بغیر قبول نہیں"*


 بحار الانوار، جلد 75، ص_347۔

ادامه مطلب



4 تسلیم۴- وَ قَالَ ( علیه السلام ) : نِعْمَ الْقَرِینُ الرِّضَی الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ کَرِیمَةٌ وَ الْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ وَ الْفِکْرُ مِرْآةٌ صَافِیَةٌ .

 و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے۔

نہج البلاغہ۔ حکمت۔4


۱۳۵- وَ قَالَ امیر المؤمنین علی ( علیه السلام ) : مَنْ أُعْطِیَ أَرْبَعاً لَمْ یُحْرَمْ أَرْبَعاً مَنْ أُعْطِیَ الدُّعَاءَ لَمْ یُحْرَمِ الْإِجَابَةَ وَ مَنْ أُعْطِیَ التَّوْبَةَ لَمْ یُحْرَمِ الْقَبُولَ وَ مَنْ أُعْطِیَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ یُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ وَ مَنْ أُعْطِیَ الشُّکْرَ لَمْ یُحْرَمِ اِّیَادَةَ .

قال الرضی : و تصدیق ذلک کتاب الله قال الله فی الدعاء ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ و قال فی الاستغفار وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوءاً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحِیماً و قال فی الشکر لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ و قال فی التوبة إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّهِ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ فَأُولئِکَ یَتُوبُ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ کانَ اللَّهُ عَلِیماً حَکِیماً .


 جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا ،جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا۔ جسے توبہ کی توفیق ہو ،وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا۔اور جو شکر کرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے۔چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں )اضافہ کروں گا۔اور توبہ کے لیے فرمایا ہے۔اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

نہج البلاغہ۔حکمت۔135


۳۰- وَ قَالَ الامام علی علیه السلام  :  وَ سُئِلَ ( علیه السلام ) عَنِ الْإِیمَانِ فَقَالَ

الْإِیمَانُ عَلَی أَرْبَعِ دَعَائِمَ عَلَی الصَّبْرِ وَ الْیَقِینِ وَ الْعَدْلِ وَ الْجِهَادِ وَ الصَّبْرُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی الشَّوْقِ وَ الشَّفَقِ وَ اُّهْدِ وَ التَّرَقُّبِ فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَی الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ وَ مَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ وَ مَنْ زَهِدَ فِی الدُّنْیَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِیبَاتِ وَ مَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَی الْخَیْرَاتِ وَ الْیَقِینُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وَ تَأَوُّلِ الْحِکْمَةِ وَ مَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وَ سُنَّةِ الْأَوَّلِینَ فَمَنْ تَبَصَّرَ فِی الْفِطْنَةِ تَبَیَّنَتْ لَهُ الْحِکْمَةُ وَ مَنْ تَبَیَّنَتْ لَهُ الْحِکْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ وَ مَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَکَأَنَّمَا کَانَ فِی الْأَوَّلِینَ وَ الْعَدْلُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی غَائِصِ الْفَهْمِ وَ غَوْرِ الْعِلْمِ وَ زُهْرَةِ الْحُکْمِ وَ رَسَاخَةِ الْحِلْمِ فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ وَ مَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُکْمِ وَ مَنْ حَلُمَ لَمْ یُفَرِّطْ فِی أَمْرِهِ وَ عَاشَ فِی النَّاسِ حَمِیداً

وَ الْجِهَادُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الصِّدْقِ فِی الْمَوَاطِنِ وَ شَنَآنِ الْفَاسِقِینَ فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤْمِنِینَ وَ مَنْ نَهَی عَنِ الْمُنْکَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الْکَافِرِینَ وَ مَنْ صَدَقَ فِی الْمَوَاطِنِ قَضَی مَا عَلَیْهِ وَ مَنْ شَنِئَ الْفَاسِقِینَ وَ غَضِبَ لِلَّهِ غَضِبَ اللَّهُ لَهُ وَ أَرْضَاهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ 


30 حضرت علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔ایمان چار ستونوں پر قائم ہے۔صبر ،یقین ،عدل اور جہاد۔ پھر صبر کی چار شاخیں ہیں۔اشتیاق، خوف ، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار۔اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ،وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ،وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ،وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا۔اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں۔روشن نگاہی ،حقیقت رسی ،عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ۔چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی۔اور جس کے لیے علم و عمل آشکار ہو جائے گا ،وہ عبرت سے آشنا ہو گا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ،تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری۔چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ،وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ،وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہو کر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی۔اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اور جہاد کی بھی چار شاخیں ہیں۔امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ،تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بد کرداروں سے نفرت۔چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ،اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ،اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ،اس نے اپنا فرض ادا کر دیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا۔

نہج البلاغہ۔حکمت ۔30

وقال الامام علیعلیه السلام
عَلَامَةُ الْإِیمَانِ أَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَیْثُ یَضُرُّکَ عَلَى الْکَذِبِ حَیْثُ یَنْفَعُکَ وَ أَنْ لَا یَکُونَ فِی حَدِیثِکَ فَضْلٌ عَنْ عِلْمِکَ وَ أَنْ تَتَّقِیَ اللَّهَ فِی حَدِیثِ ۔۔غَیْرِکَ؛
458ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں تمہارے لیے سچائی باعث نقصان ہو، اسے جھو ٹ پر ترجیح دو،خواہ وہ تمہارے فائدہ کا باعث ہو رہا ہو، اور تمہاری باتیں، تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے متعلق بات کرنے میں اللہ کا خوف کرتے رہو۔




نیمه شعبان

یہ بڑی بابرکت رات ہے امام جعفر صادق (ع)فرماتے ہیں که امام محمد باقر (ع) سے نیمہ شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یہ رات شب قدر کے علاوہ تمام راتوں سے افضل ہے۔ پس اس رات تقرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ اس رات خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل و کرم فرماتا ہے اور ان کے گناہ معاف کرتا ہے حق تعالیٰ نے اپنی ذاتِ مقدس کی قسم کھائی ہے کہ اس رات وہ کسی سائل کو خالی نہ لوٹائے گا سوائے اس کے جو معصیت و نافرمانی سے متعلق سوال کرے۔ خدا نے یہ رات ہمارے لیے خاص کی ہے۔ جیسے شب قدر کو رسول اکرم (ص)کے لیے مخصوص فرمایا۔ پس اس شب میں زیادہ سے زیادہ حمد و ثناء الٰہی کرنا اس سے دعا و مناجات میں مصروف رہنا چاہیئے۔اس رات کی عظیم بشارت سلطان عصر حضرت امام مهدی{عج}کی ولادت باسعادت ہے جو ۲۵۵ھ میں بوقت صبح صادق سامرہ میں ہوئی جس سے اس رات کو فضیلت نصیب ہوئی۔اس رات کے چند ایک اعمال ہیں :

{1}غسل کرنا کہ جس سے گناہ کم ہوجاتے ہیں

{2}نماز اور دعا و استغفار کے لیے شب بیداری کرے که امام زین العابدین (ع)کا فرمان ہے، کہ جو شخص اس رات بیدار رہے تو اس کے دل کو اس دن موت نہیں آئے گی۔ جس دن لوگوں کے قلوب مردہ ہوجائیں گے۔

{3}اس رات کا سب سے بہترین عمل امام حسین (ع) کی زیارت ہے کہ جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی ارواح اس سے مصافحہ کریں تو وہ کبھی اس رات یہ زیارت ترک نہ کرے۔ حضرت (ع) کی چھوٹی سے چھوٹی زیارت بھی ہے کہ اپنے گھر کی چھت پر جائے اپنے دائیں بائیں نظر کرے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرکے یہ کلمات کہےاَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہُ

{4}شیخ و سید نے اس رات یہ دعا پڑھنے کا ذکر فرمایا ہے، جو امام زمانہ کی زیارت کے مثل ہے اور وہ یہ ہے

اَللّٰھُمَّ بِحَقِّ لَیْلَتِنا ھذِہِ وَمَوْلُودِھا وَحُجَّتِکَ وَمَوْعُودِھَا الَّتِی قَرَنْتَ إِلی فَضْلِھا فَضْلاً فَتَمَّتْ کَلِمَتُکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِماتِکَ وَلاَ مُعَقِّبَ لآیاتِکَ نُورُکَ الْمُتَأَلِّقُ وَضِیاؤُکَ الْمُشْرِقُ، وَالْعَلَمُ النُّورُ فِی طَخْیاءِ الدَّیْجُورِ، الْغائِبُ الْمَسْتُورُ جَلَّ مَوْلِدُھُ، وَکَرُمَ مَحْتِدُھُ، وَالْمَلائِکَةُ شُہَّدُھُ، وَاللهُ ناصِرُھُ وَمُؤَیِّدُھُ، إِذا آنَ مِیعادُھُ وَالْمَلائِکَةُ أَمْدادُھُ، سَیْفُ اللهِ الَّذِی لاَ یَنْبُو، وَنُورُھُ الَّذِی لاَ یَخْبُو، وَذُو الْحِلْمِ الَّذِی لاَ یَصْبُو، مَدارُ الدَّھْرِ، وَنَوامِیسُ الْعَصْرِ،وَ  وُلاةُ الْاَمْرِ، وَالْمُنَزَّلُ عَلَیْھِمْ مَا یَتَنَزَّلُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ، وَأَصْحابُ الْحَشْرِ وَالنَّشْرِ، تَراجِمَةُ وَحْیِہِ، وَوُلاةُ أَمْرِھِ وَنَھْیِہِ۔اَللّٰھُمَّ فَصَلِّ عَلَی خاتِمِھِمْ وَقائِمِھِمُ الْمَسْتُورِ عَنْ عَوالِمِھِمْ۔اَللّٰھُمَّ وَأَدْرِکْ بِنا أَیَّامَہُ وَظُھُورَھُ وَقِیامَہُ، وَاجْعَلْنا مِنْ أَ نْصارِھِ، وَاقْرِنْ ثأْرَنا بِثَأْرِھِ، وَاکْتُبْنا فِی أَعْوانِہِ وَخُلَصائِہِ، وَأَحْیِنا فِی دَوْلَتِہِ ناعِمِینَ، وَبِصُحْبَتِہِ غانِمِینَ ، وَبِحَقِّہِ قائِمِینَ، وَمِنَ السُّوءِ سالِمِینَ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِینَ، وَصَلَواتُہُ عَلَی سَیِّدِنا مُحَمَّدٍ خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَالْمُرْسَلِینَ وَعَلَی أَھْلِ بَیْتِہِ الصَّادِقِینَ وَعِتْرَتِہِ النَّاطِقِینَ، وَالْعَنْ جَمِیعَ الظَّالِمِینَ، وَاحْکُمْ بَیْنَنا وَبَیْنَھُمْ یَا أَحْکَمَ الْحاکِمِینَ۔

{5}شیخ نے اسماعیل بن فضل ہاشمی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:امام صادق (

ع)نے پندرہ شعبان کی رات کو پڑھنے کیلئے مجھے یہ دعا تعلیم فرمائی اَللّٰھُمَّ أَنْتَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ الْخالِقُ الرَّازِقُ الْمُحْیِی الْمُمِیتُ الْبَدِیءُ الْبَدِیعُ لَکَ الْجَلالُ وَلَکَ الْفَضْلُ وَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الْمَنُّ وَلَکَ الْجُودُ وَلَکَ الْکَرَمُ وَلَکَ الْاَمْرُ،وَلَکَ الْمَجْدُ، وَلَکَ الشُّکْرُ، وَحْدَکَ لا شَرِیکَ لَکَ، یَا واحِدُ یَا أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً أَحَدٌ،صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاکْفِنِی مَا أَھَمَّنِی وَاقْضِ دَیْنِی، وَوَسِّعْ عَلَیَّ فِی رِزْقِی، فَإِنَّکَ فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ کُلَّ أَمْرٍ حَکِیمٍ تَفْرُقُ،وَمَنْ تَشاءُ مِنْ خَلْقِکَ تَرْزُقُ،فَارْزُقْنِی وَأَنْتَ خَیْرُالرَّازِقِینَ، فَإِنَّکَ قُلْتَ وَأَ نْتَ خَیْرُ الْقائِلِینَ النَّاطِقِینَ وَاسْأَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِہِ فَمِنْ فَضْلِکَ أَسْأَلُ وَ إِیَّاکَ قَصَدْتُ، وَابْنَ نَبِیِّکَ اعْتَمَدْتُ، وَلَکَ رَجَوْتُ، فَارْحَمْنِی یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

{6}یہ دعا پڑھیں کہ رسول اکرم (ص)اس رات یہ دعا پڑھتے تھے اَللّٰھُمَّ اقْسِمْ لَنا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُولُ بَیْنَنا وَبَیْنَ مَعْصِیَتِکَ، وَمِنْ طاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنا بِہِ رِضْوانَکَ، وَمِنَ الْیَقِینِ مَا یَھُونُ عَلَیْنا بِہِ مُصِیباتُ الدُّنْیا ۔ اَللّٰھُمَّ أَمْتِعْنا بِأَسْماعِنا وَأَبْصارِنا وَقُوَّتِنا مَا أَحْیَیْتَنا وَاجْعَلْہُ الْوارِثَ مِنَّا،وَاجْعَلْ ثأْرَنا عَلَی مَنْ ظَلَمَنا،وَانْصُرْنا عَلَی مَنْ عادانا، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِیبَتَنا فِی دِینِنا، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْیا أَکْبَرَ ھَمِّنا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنا، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَیْنا مَنْ لاَ یَرْحَمُنا، بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

{7}وہ صلوٰت پڑھے جو ہر روز بوقت زوال پڑھا جاتا ہے۔

{8}اس رات دعاب کمیل پڑھنے کی بھی روایت ہوئی ہے اور یہ دعا باب اول میں ذکر ہوچکی ہے۔

{9}یہ تسبیحات 100 سو مرتبہ پڑھے تا کہ حق تعالی ٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کردے اور دنیا وآخرت کی حاجات پوری فرما دے: سُبْحَانَ اللهِ وَ الْحَمْدُ للهِ وَ الله اَکْبَرُ وَ لَا اِلَہَ اِلَّا الله

{10}مصباح میں شیخ نے ابو یحییٰ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے امام جعفر صادق (ع)سے پوچھا کہ اس رات کیلئے بہترین دعا ء سی ہے؟ حضرت نے فرمایا اس رات نمازِعشا کے بعد دو رکعت نماز پڑھے جس کی پہلی رکعت میں سورۃ الحمد اور سورۃ کافرون اور دوسری رکعت میں سور ہ الحمد اور سورۃ توحید پڑھے نماز کا سلام دینے کے بعد ۳۳/مرتبہ سبحان اللہ۔ ۳۳ /مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴/مرتبہ اللہ اکبر کہے۔ بعد میں یہ دعا پڑھ  یَا مَنْ إِلَیْہِ مَلْجَأُ الْعِبادِ فِی الْمُھِمَّاتِ وَ إِلَیْہِ یَفْزَعُ الْخَلْقُ فِی الْمُلِمّاتِ یَا عالِمَ الْجَھْرِ وَالْخَفِیّاتِ، یَا مَنْ لاَ تَخْفی عَلَیْہِ خَواطِرُ الْاَوْھامِ وَتَصَرُّفُ الْخَطَراتِ، یَا رَبَّ الْخَلائِقِ وَالْبَرِیَّاتِ، یَا مَنْ بِیَدِھِ مَلَکُوتُ الْاَرَضِینَ وَالسَّماواتِ، أَ نْتَ اللهُ لاَ إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ، أَمُتُّ إِلَیْکَ بِلا إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ، فَیا  لا إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ اجْعَلْنِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ مِمَّنْ نَظَرْتَ إِلَیْہِ فَرَحِمْتَہُ، وَسَمِعْتَ دُعائَہُ فَأَجَبْتَہُ، وَ عَلِمْتَ اسْتِقالَتَہُ فَأَ قَلْتَہُ، وَتَجاوَزْتَ عَنْ سالِفِ خَطِیئَتِہِ وَعَظِیمِ جَرِیرَتِہِ، فَقَدِ اسْتَجَرْتُ بِکَ مِنْ ذُ نُوبِی، وَلَجَأْتُ إِلَیْکَ فِی سَتْرِ عُیُوبِی۔اَللّٰھُمَّ فَجُدْ عَلَیَّ بِکَرَمِکَ وَفَضلِکَ وَاحْطُطْ خَطایایَ بِحِلْمِکَ وَعَفْوِکَ وَتَغَمَّدْنِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ بِسابِغِ کَرامَتِکَ، وَاجْعَلْنِی فِیہا مِنْ أَوْلِیائِکَ الَّذِینَ اجْتَبَیْتَھُمْ لِطاعَتِکَ،وَاخْتَرْتَھُمْ لِعِبادَتِکَ، وَجَعَلْتَھُمْ  خالِصَتَکَ وَصِفْوَتَکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی مِمَّنْ سَعَدَ جَدُّھُ، وَتَوَفَّرَ مِنَ الْخَیْراتِ حَظُّہُ، وَاجْعَلْنِی مِمَّنْ سَلِمَ فَنَعِمَ، وَفازَ فَغَنِمَ وَاکْفِنِی شَرَّ مَا أَسْلَفْتُ، وَاعْصِمْنِی مِنَ الازْدِیادِ فِی مَعْصِیَتِکَ، وَحَبِّبْ إِلَیَّ طاعَتَکَ وَمَا یُقَرِّبُنِی مِنْکَ وَیُزْلِفُنِی عِنْدَکَ ۔ سَیِّدِی إِلَیْکَ یَلْجَأُ الْہارِبُ،وَمِنْکَ یَلْتَمِسُ الطَّالِبُ،وَعَلَی کَرَمِکَ یُعَوِّلُ الْمُسْتَقِیلُ التَّائِبُ، أَدَّ بْتَ عِبادَکَ بِالتَّکَرُّمِ وَأَ نْتَ أَکْرَمُ الْاَکْرَمِینَ، وَأَمَرْتَ بِالْعَفْوِ عِبادَکَ وَأَ نْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔اَللّٰھُمَّ فَلا تَحْرِمْنِی مَا رَجَوْتُ مِنْ کَرَمِکَ،وَلا تُؤْیِسْنِی مِنْ سابِغِ نِعَمِکَ،وَلاَ تُخَیِّبْنِی مِنْ جَزِیلِ قِسَمِکَ فِی ھذِہِ اللَّیْلَةِ لاََِھْلِ طاعَتِکَ وَاجْعَلْنِی فِی جُنَّةٍ مِنْ شِرارِ بَرِیَّتِکَ، رَبِّ إِنْ لَمْ أَکُنْ مِنْ أَھْلِ ذلِکَ فَأَ نْتَ أَھْلُ الْکَرَمِ وَالْعَفْوِ وَالْمَغْفِرَةِ،وَجُدْ عَلَیَّ بِما أَ نْتَ أَھْلُہُ لاَ بِما أَسْتَحِقُّہُ فَقَدْ حَسُنَ ظَنِّی بِکَ، وَتَحَقَّقَ رَجائِی لَکَ وَعَلِقَتْ نَفْسِی بِکَرَمِکَ فَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ وَأَکْرَمُ الْاَکْرَمِینَ اَللّٰھُمَّ وَاخْصُصْنِی مِنْ کَرَمِکَ بِجَزِیلِ قِسَمِکَ، وَأَعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ، وَاغْفِرْ لِیَ الذَّنْبَ الَّذِی یَحْبِسُ عَلَیَّ الْخُلُقَ وَیُضَیِّقُ عَلَیَّ الرِّزْقَ حَتَّی أَقُومَ بِصالِحِ رِضاکَ، وَأَ نْعَمَ بِجَزِیلِ عَطائِکَ، وَأَسْعَدَ بِسابِغِ نَعْمائِکَ، فَقَدْ لُذْتُ بِحَرَمِکَ وَتَعَرَّضْتُ لِکَرَمِکَ وَاسْتَعَذْتُ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَبِحِلْمِکَ مِنْ غَضَبِکَ فَجُدْ بِما سَأَلْتُکَ، وَأَنِلْ مَا الْتَمَسْتُ مِنْکَ، أَسْأَ لُکَ بِکَ لاَبِشَیْءٍ ھُوَ أَعْظَمُ مِنْکَ

پھر سجدے میں جاکر بیس مرتبے کہے :

سات مرتبہ لَاحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَاِلَّابِاللهِ 

دس مرتبہمَا شَاءَ الله

 دس مرتبہ: لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ

پھر رسول اللہ اور ان کی آل پر درود بھیجے اور بعد میں اپنی حاجات طلب کرے۔ قسم بخدا اگر کسی کی حاجات بارش کے قطروں جتنی ہوں تو بھی اللہ اپنے وسیع فضل و کرم اور اس عمل کی برکت سے وہ تمام حاجات برلائے گا۔

{11}شیخ طوسی اور کفعمی نے فرمایا ہے کہ اس رات یہ دعا پڑھے إِلھِی تَعَرَّضَ لَکَ فِی ہذَا اللَّیْلِ الْمُتَعَرِّضُونَ، وَقَصَدَکَ الْقاصِدُونَ وَأَمَّلَ فَضْلَکَ وَمَعْرُوفَکَ الطّالِبُونَ، وَلَکَ فِی ہذَا اللَّیْلِ نَفَحاتٌ وَجَوائِزُ وَعَطایا وَمَواھِبُ تَمُنُّ بِہا عَلَی مَنْ تَشاءُ فَضْلَکَ وَمَعْرُوفَکَ فَإِنْ کُنْتَ یَا مَوْلایَ تَفَضَّلْتَ فِی ھذِھِ اللَّیْلَةِ عَلَی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ وَ عُدْتَ عَلَیْہِ بِعائِدَةٍ مِنْ عَطْفِکَ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ الْخَیِّرِینَ الْفاضِلِینَ وَجُدْ عَلَیَّ بِطَوْ لِکَ وَمَعْرُوفِکَ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ وَصَلَّی اللهُ عَلَی مُحَمَّدٍ خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَآلِہِ الطَّاھِرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً إِنَّ اللهَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ۔ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَدْعُوکَ کَما أَمَرْتَ فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَ إِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیعادَ ۔

{12}اس رات نماز تهجدکی ہر دو رکعت کے بعد اور نماز شفع اور وتر کے بعد وہ دعا پڑھے کہ جو شیخ و سید نے نقل فرمائی ہے۔

(۱۳)سجدے اور دعائیں ج

ورسول الله {ص}سے مروی ہیں وہ بجا لائے اور ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو شیخ نے حماد بن عیسیٰ سے ، انہوں نے ابان بن تغلب سے اور انہوں نے کہا

جعکہامام صادق {ع}نے فرمایا کہ جب پندرہ شعبان کی رات آئی تو اس رات رسول الله {ص}بی بی عائشہ کے ہاں تھے جب آدھی رات گزرگئی تو آنحضرت بغرض عبادت اپنے بستر سے اٹھ گئے، بی بی بیدار ہوئیں تو حضور کو اپنے بستر پر نہ پایا انہیں وہ غیرت آگئی جو عورتوں کا خاصا ہے۔ ان کا گمان تھا کہ آنحضرت اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس چلے گئے ہیں۔ پس وہ چادر اوڑھ کر حضور کو ڈھونڈتی ہوئی ازواج رسول کے حجروں میں گئیں۔ مگر آپ کو کہیں نہ پایا۔ پھر اچانک ان کی نظر پڑی تو دیکھا کہ آنحضرت زمین پر مثل کپڑے کے سجدے میں پڑے ہیں۔ وہ قریب ہوئیں تو سناکہ حضور سجدے میں یہ دعا پڑھ رہے ہین سَجَدَ لَکَ سَوادِی وَخَیالِی، وَ آمَنَ بِکَ فُؤادِی، ہذِھِ یَدایَ وَمَا جَنَیْتُہُ عَلَی نَفْسِی، یَا عَظِیمُ تُرْجی لِکُلِّ عَظِیمٍ اغْفِرْ لِیَ الْعَظِیمَ فَإِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذَّنْبَ الْعَظِیمَ إِلاَّ الرَّبُّ الْعَظِیمُ   پھر آنحضرت سجدے سے سر اٹھاکر دوبارہ سجدے میں گئے اوربی بی عائشہ نے سنا کہ آپ پڑھ رہے تھے:

أَعُوذُ بِنُورِ وَجْھِکَ الَّذِی أَضائَتْ لَہُ السَّماواتُ وَالْاَرَضُونَ وَانْکَشَفَتْ لَہُ الظُّلُماتُ وَصَلَحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الْاَوَّلِینَ وَالْاَخِرِینَ مِنْ فُجْأَةِ نَقِمَتِکَ، وَمِنْ تَحْوِیلِ عافِیَتِکَ وَمِنْزَوالِ نِعْمَتِکَ ۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی قَلْباً تَقِیّاً نَقِیّاً وَمِنَ الشِّرْکِ بَریئاً لاَ کافِراً وَلاَ شَقِیّاً،

پس آپ نے اپنے چہرے کو دونوں طرف سے خاک پر رکھا اور یہ پڑھا: عَفَّرْتُ وَجْھِیْ فِیْ التُّرَابِ وَحُقَّ لِّیْٓ اَنْ اَسْجُدَ لَکَ

(۱۴)اس رات نماز جعفر طیار{ع}بجا لائے، جو شیخ نےعلی رضا{ع}سے روایت کی ہے۔

۱۵)اس رات کی مخصوص نمازیں پڑھے جو کئی ایک ہیں، ان میں سے ایک وہ نماز ہے جو ابو یحییٰ صنعانی نے حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق (ع)سے نیز دیگر تیس معتبر اشخاص نے بھی ان سے روایت کی ہے۔ کہ فرمایا:پندرہ شعبان کی رات چار رکعت نماز بجا لائے کہ ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سو مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہے اَللّٰھُمَّ إِنِّی إِلَیْکَ فَقِیرٌ، وَمِنْ عَذابِکَ خائِفٌ مُسْتَجِیرٌ ۔ اَللّٰھُمَّ لاَ تُبَدِّلِ اسْمِی وَلاَ تُغَیِّرْ جِسْمِی،وَلاَ تَجْھَدْ بَلائِی،وَلاَ تُشْمِتْ بِی أَعْدائِی ،أَعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقابِکَ وَأَعُوذُ بِرَحْمَتِکَ مِنْ عَذابِکَ وَأَعُوذُ بِرِضاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ، جَلَّ ثَناؤُکَ أَ نْتَ کَما أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ وَفَوْقَ مَا یَقُولُ الْقائِلُونَ ۔

یاد رہے کہ اس رات سو رکعت نماز بجا لانے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ اس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے۔ اس کے علاوہ چھ رکعت نماز ادا کرے کہ جس میں سورۃ الحمد، سورۃ یٰسین، سورۃ ملک اور سورۃ توحید پڑھی جاتی ہے


 


بسمه تعالی

درس اول: تزکیه نفس

مقدمه:

خداند متعال کی بارگاه میں شکر ادا کرتے هیں که جس نےهمیں توفیق عطا فرمایی اور یه لطف کرم شامل حال کیا همیں پهر سے ماه مبارک رمضان نصیب هوا ماه مبارک رمضان وه مهینه هے جس کے بارے پیغمبر اسلام ص نے ارشاد فرمایا هے أیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْکُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَکَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ. [1] اے لوگو تمهاری طرف الله کا مهینه آرها هے جو که برکتوں کے ساتھ ،رحمتوں کے ساتھ ،مغفرت کے ساتھ ارها هے.

یه ماه تزکیه نفس خود سازی اور تهذیب نفس کا مهینه هے.لھذا چند مطالب تزکیه نفس کے عنوان سے پیش خدمت هے.

تزکیه نفس: یعنی انسان اپنے نفس کواخلاق ناپسند سے  پاک کرنا اور اخلاقی آلودگی سے محفوظ رکهنا هے اور اپنےآپ کو آراسته کرناهےفضائل اخلاقی سےجو که سبب بنتا هے کمال و سعادت واقعی دنیا اور آخرت کا.خداوند متعال نے قرآن کریم میں تزکیه نفس کی بهت زیاده تأکید فرمایا هے ، چنانچه سوره شمس میں ارشاد  فرماتا هے قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّئهَا[2] بتحقیق جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا کامیاب ہوا. اورفساد اخلاقی کو منشأ بدبختی قرار دیا هے. وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّئهَا [3] اور جس نے اسے آلودہ کیا وہ خسارے میں رہا. ععبد الله ابن عاس نے رسول خدا ص سے رویت کی هےعنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ اَلنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ : مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ إِیمَاناً وَ اِحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ اگر کویی شخص ماه مبارک رضان کا روضه رکھے اپنے.کان،آنکھ، اور زبان مراقبت کے ساتھ خداوند اس کے روزے کو قبول فرماتا هے اور اس کے گناهوں کو بخش دیتا هے.[4]

عابد مقدسی.   abidmuqaddasi.blog.ir


[1] بحارالأنوار ج : 93 ص : 35

[2] الشمس ایه 9

[3] الشمس ایه 10

[4] مجلسی، محمد باقر؛ بحارالانوار، تهران، دراالکتب الاسلامیه ، 1397ه.ق، چاپ دوم، ج77، ص 88.


بسمه تعالی:

 سلسلہ درس۔تزکیہ نفس۔۔

ھم نے بچھلے تحریر مین تزکیہ ،کے بارے میں کچھ مطالب بیان کیے تھے۔ اب ا یہاں پر نفس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ھے۔۔

نفس کے معنی۔ نفس لغت میں روح کے  معنی میں استعمال ھویے ھے۔راغب اصفہانی لکھتے ھے نفس کا معنی روح کے ھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ھے۔وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی أَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ(235)۔[1] یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم واِردبار بھی

نفس قرآن کی نظر میں۔ آیةالله طبرسی  نے تحریرکیا ھےنفس کی تین معنی بیان کی هین1_نفس روح کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔۔ جیسا که گذشته آیه مین بیان کیا.

2-۔نفس ذات کے معنی میں بھی استعمال ھوا ھے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے وَ اتَّقُواْ یَوْمًا لَّا تجَزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْا[2] اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے

3- نفس قلب اور باطن کے معنی میں بھی اسعتمال ھوے ھے جیسا کہ قران مجید میں خالق کائنات فرماتے ھے۔۔ وَ اذْکُر رَّبَّکَ فىِ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَ خِیفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الاَصَالِ وَ لَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِین[3]

اوراپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

نفس کے مراتب قرآن کی نظر میں۔[4]

نفس کے چند مراتب قرآن مجید میں بیان ھوے ھیں۔1-نفس امارہ :جو کہ انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن اور خدا کے عظیم بندوں نے اس سے پناہ طلب کی ھے۔قران کریم میں ارشاد ھوا ھے وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسىِ  إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ  بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ إِنَّ رَبىّ غَفُورٌ رَّحِیم[5] دوسری ایت میں ارشاد ھے وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الهْوَى‏(40)فَإِنَّ الجْنَّةَ هِىَ الْمَأْوَى[6] جو اپنے پروردگار کے مقام و مرتبہ سے ڈرااور اس نے ھوا و ھوس سےاپنے نفس کو روکے رکھاتو بھشت اسکی منزل ھے

نفس کے اس مرتبہ کے سلسلہ میں امیرالمومنین ع فرماتے ھے۔ بندہ پر فرض ھے کہ وہ اپنے نفس کو سرکشی اور بے ادبی سے روکے رکھے اور اسے با ادب و مودب بنایےاور بندے کو چاھیےکہ وہ اسکی خوھشون کو پورا نہ کرے بلکہ اسے قابو میں رکھے اگر آزاد چھوڑدے گا تو وہ اسکی تباھی میں ایسا شریک ھوگا جو نفس کی خواہشون کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرتا ھے گویا اس نے بربادی اور ھلاکت میں اپنے نفس کے ساتھ شریک ھوا۔[7] امام صادق ع فرماتے ھے نفس کو چھوڑنے سے پہلےاسے ضرر رسانی سے روک دو اور اسکی زبان کو لگام چڑھا دو اور اسے ناجائز خوہشوں کی زنجیر  سے آزاد کرنے کیے لیےاسی طرح کوشش کرو جس طرح تم اپنا روزگار تلاش کرنے میں کوشش کرتے ھو کہ تمھارے عمل نفس کی وجہ سے ھے۔

abidmuqaddasi.blog.ir

 

[1] البقره 235

[2] البقره 48

[3] اعراف 205

[4] آیینه حقوق ص 67

[5] سورہ یوسف 53

[6] نازعات40/41

[7] مستدرک الوسایل ج2صفحہ270


بسمه تعالی:

 سلسلہ درس۔تزکیہ نفس۔۔

ھم نے بچھلے تحریر مین تزکیہ ،کے بارے میں کچھ مطالب بیان کیے تھے۔ اب ا یہاں پر نفس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ھے۔۔

نفس کے معنی۔ نفس لغت میں روح کے  معنی میں استعمال ھویے ھے۔راغب اصفہانی لکھتے ھے نفس کا معنی روح کے ھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ھے۔وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی أَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ(235)۔[1] یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم واِردبار بھی

نفس قرآن کی نظر میں۔ آیةالله طبرسی  نے تحریرکیا ھےنفس کی تین معنی بیان کی هین1_نفس روح کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔۔ جیسا که گذشته آیه مین بیان کیا.

2-۔نفس ذات کے معنی میں بھی استعمال ھوا ھے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے وَ اتَّقُواْ یَوْمًا لَّا تجَزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْا[2] اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے

3- نفس قلب اور باطن کے معنی میں بھی اسعتمال ھوے ھے جیسا کہ قران مجید میں خالق کائنات فرماتے ھے۔۔ وَ اذْکُر رَّبَّکَ فىِ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَ خِیفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الاَصَالِ وَ لَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِین[3]

اوراپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

نفس کے مراتب قرآن کی نظر میں۔[4]

نفس کے چند مراتب قرآن مجید میں بیان ھوے ھیں۔1-نفس امارہ :جو کہ انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن اور خدا کے عظیم بندوں نے اس سے پناہ طلب کی ھے۔قران کریم میں ارشاد ھوا ھے وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسىِ  إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ  بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ إِنَّ رَبىّ غَفُورٌ رَّحِیم[5] دوسری ایت میں ارشاد ھے وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الهْوَى‏(40)فَإِنَّ الجْنَّةَ هِىَ الْمَأْوَى[6] جو اپنے پروردگار کے مقام و مرتبہ سے ڈرااور اس نے ھوا و ھوس سےاپنے نفس کو روکے رکھاتو بھشت اسکی منزل ھے

نفس کے اس مرتبہ کے سلسلہ میں امیرالمومنین ع فرماتے ھے۔ بندہ پر فرض ھے کہ وہ اپنے نفس کو سرکشی اور بے ادبی سے روکے رکھے اور اسے با ادب و مودب بنایےاور بندے کو چاھیےکہ وہ اسکی خوھشون کو پورا نہ کرے بلکہ اسے قابو میں رکھے اگر آزاد چھوڑدے گا تو وہ اسکی تباھی میں ایسا شریک ھوگا جو نفس کی خواہشون کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرتا ھے گویا اس نے بربادی اور ھلاکت میں اپنے نفس کے ساتھ شریک ھوا۔[7] امام صادق ع فرماتے ھے نفس کو چھوڑنے سے پہلےاسے ضرر رسانی سے روک دو اور اسکی زبان کو لگام چڑھا دو اور اسے ناجائز خوہشوں کی زنجیر  سے آزاد کرنے کیے لیےاسی طرح کوشش کرو جس طرح تم اپنا روزگار تلاش کرنے میں کوشش کرتے ھو کہ تمھارے عمل نفس کی وجہ سے ھے۔

abidmuqaddasi.blog.ir

 

[1] البقره 235

[2] البقره 48

[3] اعراف 205

[4] آیینه حقوق ص 67

[5] سورہ یوسف 53

[6] نازعات40/41

[7] مستدرک الوسایل ج2صفحہ270


سلسه دروس قسط 3:تزکیه نفس. نفس اماره یا خواهشات نفسانی پر کیسے قابو کیا جاسکتا هیین؟ نفس کے مراتب قرآن کی نظر مین: ھم نے بچھلے تحریر مین نفس کی معنی ،اوراس کے مرتب مین سے نفس اماره کے بارے مین کها تها نفس اماره  انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن قرار دیا هیں- اور جس کی مخالفت کو جهاد باالنفس اور جهاد اکبر  کها گیا هین چنانچه پیغمبر ص کا یه فرمان عَنْ أَبِی عَبْدالله (ع): إِنَّ النَبِیَّ (ص) بَعَثَ سَرِیَةً فَلَمَّا رَجَعُوا، قَالَ مَرْحَباً بِقَومٍ قَضُوا الْجِهَادُ الْأَصْغَرِ وَ بَقِیَ عَلَیْهِم الْجِهَادُ الْأَکْبَرِ. قِیلَ یَا رَسُولَ اللهِ (ص) مَا الْجِهَادُ الْأَکْبَرِ؟ قَالَ: جِهَادُ النَّفْسّ:[1] امام صادق (ع) سی روایت هے  که  پیغمبر (ص) مسلمانون مین سے ایگ گروه کو جهاد کی لیے بهیجا.جب یه لوگ واپس پهنچے تو رسول ص نی فرمایا آفرین هو اس گروه پر جنهون نی جهاد اصغر  انجام دیا،لیکن انکیےوظیفة جهاد اکبر باقی هیں. عرض کیا : یا رسول الله جهاد اکبر کیا هین ؟آپ (ص) نے ارشاد  فرمایا ‌ جهاد با النَفْس». اسی طرح حضرت امیر المومنین علی (ع) کا بهی قول هے:‌ المُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ: مجاهد واقعی وه هے جس نے اپنے سرکش نَفْس سے جهاد کیا»  [2]دوسری جگه پر امیر المومنین ع فرماتے هے اپنے نفس کی مخالفت کرو تاکه تم سیدهی سچی زندگی بسر کرسکو اور صاحبان علم کے ساتھ  گل مل جاو که اس طرح تم جهالت سے نجات پاوگی[3] اسی طرح پیغبر ص ایک جماعت سے گزری ان میں سے ایک آدمی بهت وزنی اور بهاری پتهر اٹھایا هوا تها اس کے بارے میں لوگ یه که رهے تهی که وه بهت وزنی پتهروں کا اتهانے  والا هے- اس کی وزن برداری دیکھ کر لوگ حیرت زده تهے. رسول (ص) ان کی قریب تشریف لے گیے اور معلوم کیا :کیا معامله هے؟ لوگون نی بتایا اے الله کے رسول (ص) ایک شخص پتهر اتهاتا هے اسے سب سے باری اور وزنی پتهر اٹهانے والاکهتا هے- آپ (ص) نے فرمایا:کیا تم یه چاهتے هو که میں اس سے زیاده طاقت ور آدمی کی خبر دون؟ وه شخص هین که جس کو دوسرا برا کهتا هے اور وه برداشت کرلیتاهے اور صبر سے کام لیتا هے ، ا.وراپنے اوپر قابو رکهتا هے  اور شیطان پر غالب آجاتا هین[4]

جاری هی

 

 

[1] (حُرّ عاملی، 1396ق.، ج11: 1 22)

[2] آینه حقوق ص 68

[3] شرح غرر ودررج3ص 426

[4] مجموعه وراج ج2 ص210


 نفس لوّامه: لَوْم: ملامت و سرزنش کے معنی میں بے اور نفس لومہ انسان کے اپنے آپ کو ملامت کرنا اس نسبت سے کہ جو برائی اس نے انجام دیا ھے اس وجہ سے اپنے آپ کو سرزنش اور ملامت کا مستحق سمجھتا ھے پس‏  نفس لوامه- یا حالت ملامتگرى و بیدارى وجدان  انسان_ اور انسان کا اپنے کئے سے آگاہ ھونا ھے که انسان سے اگر کوئی برائی سرزد ھوجایے تو اسکا اپنا وجدان؛ اسکا اپنا ضمیر اسے سرزنش کرتاھے اور اسکا وجدان اسے تنبیہ کردیتا ھے اور اس کے اپنے بارے میں فیصلہ کردیتاھے تاکہ وہ انسان اس آیہ کریمہ کا مشمول ھوجایے- أَ لَمْ أَعْهَدْ إِلَیْکُمْ یا بَنِی آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّیْطانَ اے بنی نوع انسان آیا ھم نے تم سے عہد نہیں لیاتھا کہ شیطان کی پیروی مت کرنا؟  اسی لیے کہا گیا ھے کہ یہی نفس  انسان کے اچھائی کی طرف لے جانے کا سبب بن جاتا هے_ چونکہ انسان جب بھی کوئی برائ انجام دیتا ہے یہی نفس لومہ ہی اسے سرزنژ کردیتے ھے  بشرط این کہ انسان نفس لوامہ کی آوازسن لے  اور اس پرعمل  کرے_" نفس لوامه" نفس کا ایک ایسا مرحله هے که انسان ،تعلیم وتربیت اور جدوجهد کے بعد اس مرحله پر فائز هو تا هے، کبهی کبھی انسان کی لغزشون ،کوتاهیون کے نتیجه میں بعض خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب هو تا هے، لیکن فوراً پشیمان هو کر اپنے آپ کی سرزنش وملامت کر تا هے اور اپنے گناه کی تلافی کر نے کا فیصله کرتا هے اور اپنےدل وجان کو توبه کے پانی سے دھو لیتا هے-
قرآن مجید نفس کے اس مرحله کو " نفس لوامه " کهتے هوئے ارشاد فر ماتا هے : " اور برائیوں پر ملامت کر نے والے نفس (نفس لوامه) کی قسم کهاتا هوں که قیامت حق هے
 وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
اور نفسِ لوامہ، بیدار اور ملامت کرنے والے وجدان کی قسم (کہ قیامت حق ہے
اہم بات یہ کہ یها پر دو چیزو کی قسم کهایی ه ایک قیامت کی دوسری نفس لوامه کی ہم یہ دیکھیں کہ ان دونوں قسموں (قیامت کے دن کی قسم اور بیداروجدان کی قسم) کے درمیان کیا راطبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاد کے وجود کی ایک دلیل ۔ انسان کی روح کے اندر، "محکمہ وجدان" کا وجود ہے، جو نیک کام کو انجام دینے کے وقت، انسان کی روح کی خوشی اور نشاط سے پر کردیتا ہے۔، اور اس طریقہ سے اسے جزا دیتا ہے اور برے کام کے انجام دینے یا کسی جرم کا ارتقاب کرنے کے موقع پر، اس کی روح سخت دباؤ ڈال کر اسے سزا دیتا ہے اور شکنجہ میں جکڑتا ہے
ہاں! یہ عدالت وجدان اتنی عظمت و احترام کی حامل ہے کہ خدا اس کی قسم کھا رہا ہے اور اس کو عظیم شمار کر رہا ہے اور واقعاًوہ عظیم و بزرگ ہے کیونکہ وہ انسان کی نجات کا یاک اہم عامل شمار ہوتی ہے، بشرطیکہ وجدان بیدار ہو اور کثرتِ گناہ کی وجہ سے ضعیف و ناتواں نہ ہوجاۓ
"نفس لوامہ" کاردعمل اور اثر انسانوں کے وجود میں بہت ہی وسیع و عریض ہے اور ہر لحاظ سے قابلِ غور و مطالعہ ہے، اور ہم نکات کی بحث میں اس کی طرف مزید اشارہ کریں گے۔ جب "عالم صغیر" یعنی انسان کا وجود اپنے اندر ایک چھٹا سا محکمہ اور عدالت رکھتا ہے تو "عالمِ کبیر" اپنی اس عظمت کے باوجود ایک عظیم مھکمہ عدل کیوں نہ رکھتا ہوگا۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے ہم "وجدان اخلاقی" کے وجود سے "قیامت اور معاد" کے وجود کی ٹوہ لگاتے ہیں اور یہیں سے ان دونوں قسموں کا ایک عمدہ ربط واضح ہوجاتا ہے

1-مفردات الفاظ قرآن، ج‏4، ص: 174

2-آیینه حقوق

3-تفسیر نمونه


دروس ماه مبارک رمضان موضوع :تزکیه نفس اصلاح کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہیے۔

امیر المومنین ع کا ارشاد گرامی ہے که مَن نَصَبَ نَفسَهُ لِلنّاسِ اِماماً فَلیَبدَأ بِتَعلِیمِ نَفسِهِ قَبلَ تَعلیمِ غَیرِه؛‌[1] بالکل واضح ہے که اصلاح کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہیے-همین خود اپنے اوپر پهلے توجه دینا چاہیے- تزکیه نفس اور خود سازی کا پهلا اور اهم ترین قدم یه ہے که انسان اپنے آپ کو؛اپنے اخلاق کو اور اپنے کردار کو تنقیدی نگاه سے دیکھے- اپنے عیوب کو دیکھے-ان پر غور کرے اور انهین دور کرنےکی کوشش کرے یه کام هم خود هی کرسکتے بے- اور یه زمداری خود هماری کندون پر ہے-همین اپنی حفاظت کرنی چاہیے،اپنی لغزشون کو کم کرنی چاہیے اور اس کام مین خدا سے مدد مانگنا چاہیے- اپنی بد اخلاقیون اور بری صفات کا پته لگایے یه مجاهدت کا دشوار حصه  ہے- خود  پسندی و خود ستایی مین مبتلا نه هو اپنے عیوب کو دیکهے اور انکی فهرست اپنی سامنے رکهے کوشش کرے که اس فهرست میں مسلسل کمی آیے اگر حسد هےاپنے اندر حسد کو ختم کرےاگر ضدی ہے تو ضد کو ختم کری اگر کاهل اور سست ہے تو کاهلی اور سستی کو ختم کرے اگر دوسرن کا برا چاهتی ہےاور بدخواه ہےتو بدخواهی کو دور کرے اگر اپنے اندر وعده خلافی پایےجاتے هو تو وعده خلافی کو دور کرے اور اگر عهد شکنی پایے جاتے هو تو عهد شکنی اور بی وفایی کو ختم کرے اس سلسله مین مجاهدت کرنے والون کی خداوند عالم مدد کریگا- خداوند عالم کمال تک پهنچنے کی لیےجاری مجاهدت مین انسان کو بی یار وممدگار نهین چهوڑتا اس مجاهدت  کا فایدهے سب سے پهلے خود مجاهدت کرنےوالے کو پهنچتا هےاس کی علاوه نفس سے جهاد نفس کی اصلاح اور راه خدا مین اپنے  اندر مجاهدت کا فایده جو جهاد اکبر هین؛ خود اس فرد تک محدود نهین رهتا بلکه معاشره اور ملک و قوم کی حالات هر جگه اس کی اثرات مرتب هوتے هے مختصر یه که اس طریقے سے انسان کی دنیا و آخرت دونون سنور جاتی ہے-ایک حدیث مین امام زین العابدین سے منقول ہے که اپ نی فرمایا [2]کان علی بن الحسین ع یقول: ابن آدم لا تزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک و ما کانت المحاسبة لها من همک و ما کان الخوف لک شعارا و الحزن لک دثارا ابن آدم إنک میت و مبعوث و موقوف بین یدی الله عز و جل و مسئول فأعد فاعد جوابا اولاد آدم تیرا حال تیری حالت تیری ایام اور تیرا راسته اس وقت تک اچها رهیگا جب تک تو خود اپنی نفس کو وعظ ونصیحت کرتا رهیگا کویی تیری باطن مین تجهےنصیحت کرے تیرا دل تیری عقل تیرا ضمیر تیرا ایمان تجهے نصیحت کرے دوسرن کی نصیحت مفید هے لیکن اس سے زیاده مفید یه هے که انسان خود اپنے آپ کو نصیحت کرے- اور جب تک انسان انسان اپنی محاسبه کرتےرهو گے –انسان کا اپنا محاسبه دوسرون ک محاسبےسے زیاده دقیق ھو سکتےهے اس لیے که انسان خود سے کچھ نهین چھپاسکتا –اور جب تک خوف خدا تمهارا شعار اور اور عذاب الهی کا خوف اور احتیاط تمهارا لباس رهے گا اس وقت تک تم اچهی بنیے رهو گے –یعنی خدا سےدرتے رهو اور غضب و عذاب الهی کو نظر مین رکهو اور خیال رکهو  که تم سے کویی ایسی –لغزشش نه هو  جو اس بات کا باعث بنےکه خدا تم سےغضبناک هو[3]-اگر هم ان باتون کا خیال رکهینگے یعنی خود کو وعظ و نصیحت کرتے رهینگے – خود اپنا محاسبه کرتے رهینگے اور عذاب و قهر الهی سے ڈرتے رهینگے اچهایی اور نیکی  مین رهوگے- هماری دنیا اچهی رهیگی اور آخرت بهی -  

 

[1] کلمات قصار 73

[2] تحف‏العقول ، حسن بن شعبه حرّانى‏ ص ۲۸۰ ؛ بحارالأنوار ، علامه مجلسی ج ۶۷ ص ۳۸۲ ؛

[3] خودسازی.ص 19


اخلاقی خصوصیات:

امام حسن (ع) کے اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔ آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔

جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

حسن ابن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔  

ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک قطرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

پرہیزگاری:

آپ خداوند کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے، جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے۔  جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے:

حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ،

جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔

مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

امام حسن (ع) اپنے زمانے کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو رویا کرتے تھے. 

بحار الانوار ج 43 ص 331

امام حسن (ع) اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔

بحار الانوار ج 43 ص 331

سخاوت:

امام حسن (ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنے تمام اموال کو خدا کی راہ میں دیا اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ آدھا راہ خدا میں دیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔  

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 215
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دے دے۔ امام (ع) اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔

کشف الغمہ، ج 1 ص 558

ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو، آپ (ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خداوند نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر آپ (ع) نے یہ آیت پڑھی:

و اذاحُیّیتم بتحیّة، فحَیّوا باحسن منھا،

جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔  

بحار الانوار ج 43 ص 342

بردباری:

ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اوراس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا۔ امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:

اے محترم انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو، میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کر دوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے۔

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی:

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔  آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

بحار الانوار ج 43 ص 

شرح ابن ابی الحدید ج 16 ص 51

مؤسسه ولی عصر


آخرین ارسال ها

آخرین وبلاگ ها

آخرین جستجو ها